بالاخر امریکہ کو جانا ہو گا

Image may contain: 1 person, smiling
No automatic alt text available.
 

 ایک کل کی خبر ہے دوسری میری ایک گزشتہ پوسٹ کا حصہ۔ ملا فضل اللہ تو نہیں پر اس کا ایک ساتھی کتے کی موت مارا گا افغانستان میں۔ ویسے بھلا ہو افغان طالبان کا اکثر کاروائی ایسے موقع پہ اور ایکوریٹ ٹائمنگ پہ ڈالتے ہیں کہ مجھے خود بھی حیرت ہونے لگتی ہے۔
اگست 2016 کی بات ہے پاکستانی میڈیا پہ ایک خبر چل رہی تھی کہ پاکستان کا ھیلی کاپٹر افغان طالبان نے مار گرایا ہے اور عملے کے چھ افراد کو یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ خبر پورے ملک میں بریکنگ نیوز کے طور پہ چل رھی تھی۔ بندے نے اس وقت لکھا کہ نا تو ھیلی کاپٹر افغان طالبان نے ھٹ کیا ہے اور نا ہی پاکستانی عملے کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ بلکہ ھیلی کاپٹر فنی خرابی کے باعث کریش ہوا اور پاکستانی عملہ طالبان کا یرغمال نہیں ہے بلکہ ان کی حفاظتی تحویل میں ہے۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دو دن بعد افغان طالبان نے ایک بیان جاری کیا جو کچھ اس طرح تھا "ہم نے ھیلی کاپٹر ہٹ نہیں کیا بلکہ ھیلی کاپٹر نے کریش لینڈنگ کی۔ پاکستانی عملہ ہماری تحویل میں ہے انتظام ہوتے ہی ان چھ لوگوں کو پاکستان کے حوالے کر دیں گے" واضح رہے ان چھ آدمیوں میں ایک آدمی روس کا بھی تھا۔
افغان امریکہ جنگ شروع ہونے سے لے کر آج تک ایک طبقہ ملک میں ایسا ہے جو اس جنگ پہ پراپگینڈہ کرتا ہے اور شور مچاتا ہے کہ یہ جنگ ہم نے امریکی مفاد میں لڑی۔ آج سے تین چار سال بعد کے واقعات سورج کی طرح اس حقیقت کو روشن کر دیں گے کہ پاکستان نے یہ جنگ امریکی مفاد میں نہیں لڑی تھی، مقاصد کچھ اور تھے اور بہت وسیع تھے۔ ہمارے بعض طبقے جانتے بوجھتے پراپگینڈہ کرتے رہے۔ ہاں ہم امریکہ کو نہ تو اس وقت یہ کہہ سکتے تھے کہ بیٹا تجھے افغان طالبان سے رگڑا لگوائیں گے نا ہم آج یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی طرح کی دھشت گردی پہ یقین رکھتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکی پراپگینڈہ اتنا زبردست تھا کہ کسی نے یہ نہ سوچا کہ افغان طالبان دھشت گرد نہیں ہیں کسی مغربی اور دیگر اسلامی ملک نے یہ نہ کہا کہ افغانیوں کو طالبان تو خود امریکہ نے اپنی مرضی سے بنایا تھا پھر آج یہ دھشت گرد کیسے ہو گئے؟
آج سولہ سال بعد افغان طالبان ایک سیاسی قوت کے طور پہ ابھر رہے ہیں۔ ایران اور روس جیسے ممالک بھی افغانستان کی سیاست میں افغان طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔
اس سولہ سال کی جنگ میں افغان طالبان نے ایک بھی حملہ پاکستان کی سرزمین پہ نہ کیا اور یہی امریکہ کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ اور یہی دکھ پاکستان کے لبرل اور سیکولر طبقے کا بھی ہے۔ افغان طالبان پاکستان کا احترام کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ان کی حمایت کر رہا ہے۔ بھارت کو بھی یہی تکلیف ہے اس لیے بھارت افغان طالبان کی طاقت توڑنے کےلیے افغانستان میں داعش کی مدد کر رہا ہے۔امریکہ یہ سب دیکھ رہا ہے مگر جان بوجھ کر خاموش ہے اور الزام پاکستان پہ ڈالتا ہے۔
ایک بات اپنے دماغ میں نقش کر لیں کہ پاکستان نے نائن الیون کی جنگ پاکستان کے دفاع کےلیے لڑی تھی۔ یہ جنگ نا تو امریکہ کی حمایت میں لڑی گئی تھی اور نا ہی افغان طالبان کی مخالفت میں۔ ایک مذھبی انتہا پسند طبقہ اور دوسرا سیکولر طبقہ دونوں اس معاملے پر اپنا منجن بیچتے ہیں کہ پاکستان امریکہ سے پیسے لے کر لڑتا رہا۔ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ جہاں تک پیسے لینے کی بات ہے تو پاکستان کو جب بھی موقع ملے اسے آئندہ بھی امریکہ کو چونا لگانا چاہیے۔ اگر ہم نے ایک عالمی ڈاکو کو لوٹا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ ہم نے امریکہ کے دفاع میں یہ جنگ لڑی تو یہ بالکل غلط ہے۔ کم سے کم افغان طالبان ایسا کچھ نہیں سمجھتے۔
امریکہ افغانستان میں پچھلے سولہ سال سے جوتے کھا رہا ہے اور مزید بھی کھائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ نے اپنی جنگ لڑی جب کہ پاکستان نے اپنی جنگ پاکستان میں لڑی دھشت گردی کے خلاف۔ امریکہ چاہتا تھا پاکستان افغان طالبان سے لڑے یہ ہم نے نہ تب کیا نہ آج کر رہے ہیں۔ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ امریکہ اپنی جنگ خود لڑے ہم آج بھی امریکہ سے یہی کہتے ہیں ہم افغانستان میں نہیں لڑیں گے۔ ہم اپنے ملک سے دھشت گردی کا خاتمہ کر چکے ہیں باقی رہا افغانستان کا مسئلہ تو یہ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں مضبوط امن کےلیے امریکہ کو فوجیں نکال کر بات چیت کا راستہ اپنانا ہو گا اور بھارت کا کردار افغانستان میں محدود کرنا ہو گا۔ باقی امریکہ کی مرضی ہے چاہے تو دو چار سال مزید یہاں زلیل ہو کر نکلے پر بہرحال نکلنا ضرور ہے اسے یہاں سے۔
تحریر: سنگین علی زادہ۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

دہشتگردوں کو پناہ دیکر پاکستان بہت نقصان اٹھائے گا

گوند کے تالاب میں ڈوبتا امریکہ