دہشتگردوں کو پناہ دیکر پاکستان بہت نقصان اٹھائے گا



دہشتگردوں کو پناہ دیکر پاکستان بہت نقصان اٹھائے گا،
امریکی نائب صدر مائیک پنس.
مسٹر پنس پاکستان مسلسل 16 سال سے نقصان اٹھا رہا ہے اور اپنے حصے کا کام بہ خوبی کر چکا ہے۔ ہم اپنی سرزمین سے نوے فیصد دھشت گردی کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ جو کام نیٹو افغانستان میں 16 سالوں سے نہ کر سکی ہم نے 3 سال سے کم وقت میں کر لیا۔ دھشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو پوری دنیا سراہ رہی ہے سوائے امریکہ کے محض اس لیے کہ امریکہ اپنی ناکامی کا ملبہ کسی نہ کسی پہ ڈال کر سرخرو ہونا چاہتا ہے۔ یا پھر محض اس لیے کہ ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقت چائنہ کی بہترین نمو پاتی معیشت سے امریکہ خوفزدہ ہے۔ 

سرحد پہ باڑھ لگا کر دھشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کےلیے امریکہ سے بات کی جاتی ہے اور امریکہ جواب میں آئیں بائیں شائیں کر دیتا ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر دھشت گردوں کو صفایا کرتا ہے، دھشت گرد افغانستان بھاگ کے وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکہ دھشت گردوں کی سیاسی پناہ دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ داعش پورے شام و عراق سے سمٹ کر افغانستان اکھٹی ہو جاتی ہے امریکہ کی عین ناک کے نیچے اور امریکہ ناک سے مکھی تک اڑانا گوارا نہیں کرتا باوجود اس کے پاکستان اپنی خفیہ اطلاعات میں امریکہ کو داعش کے خطرے سے آگاہ کر دیتا ہے۔ بھارت کا قومی سلامتی کا مشیر اجیت ڈوول عراق کا خفیہ دورہ کر کے داعش کی قیادت سے ملتا ہے۔ واپسی پہ بیان دیتا ہے کہ ہم کانٹے سے کانٹا نکالیں گے یعنی دھشت گردی کا خاتمہ دھشت گردی سے کریں گے اس کے بعد داعش افغانستان میں یکلخت مکمل فعال ہو جاتی ہے۔ بجائے امریکہ بھارت کی دھشت گردوں کی حمایت پر مزمت کرنے کے اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان پہ انکشاف کرتا کہ خطے میں بھارت کو چوہدری بنانے کےلیے امریکہ اپنا کردارا ادا کرے گا۔ بہ طورِ قوم ہم امریکہ سے اس منافقت کی توقع نہیں رکھتے مسٹر پنس۔ افغانستان پاکستان میں دھشت گردی کروائے تو امریکہ خاموش، بھارت افغان طالبان کے خلاف داعش کے زریعے افغانستان میں دھشت گردی کروائے تو امریکہ خاموش۔ بھارت بلوچستان میں دھشت گردی کروائے تو امریکہ خاموش۔ بھارت ایل او سی معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو امریکہ خاموش۔ یہ منافقت کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں کی جا سکتی نہ ہی دنیا میں کسی ملک کے کسی ملک سے تعلقات ایسے پنپ سکتے ہیں۔
مسٹر پنس قدرتی طور پہ ہم اس بات کی فکر کرنے کے بجائے کہ امریکیوں کی جان کو خطرہ ہے اپنی سلامتی کی فکر کریں گے۔ بھارت اور افغانستان کے منفی کردار کی وجہ سے پاکستان کی دھشت گردی کے خلاف حاصل کی گئی کامیابیوں کو خطرہ لاحق ہے اور امریکہ چپ کھڑا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بجائے بھارت اور افغانستان کو دھشت گردی سے روکنے کے امریکہ پاکستان پہ اپنا نزلہ گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان امریکہ سے تعاون کے بجائے اپنے تعلقات پہ نظرِ ثانی کرے گا۔ دھشت گردی کے خلاف جنگ میں بہ طورِ اتحادی اگر امریکہ پاکستان کو جنگ کے اخراجات ادا کرتا رہا ہے تو یہ پاکستان پہ کوئی احسان نہیں تھا نا ہی امریکہ یہ سمجھے کہ اس نے پاکستان پہ کوئی احسان کیا۔ ان اخراجات سے دوگنا زیادہ ہماری معیشت کا نقصان ہوا ہے اور جانی نقصان اس سے علیحدہ ہے۔ مڈل ایسٹ میں تیزی سے بدلی سیاسی صورتحال اور ایشیاء کے بدلتے سیاسی حالات پاکستان کےلیے نئے اتحاد کے راستے کھول چکے ہیں۔ دوسری طرف سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی، اسٹریٹجک اور معاشی اہمیت میں ماضی سے چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ہم امریکہ کے محتاج قطعی نہیں ہیں کہ امریکہ اپنی ناک کے نیچے دھشت گردی ہوتی دیکھ کر مونچھ کو بل دیتا رہے اور الٹا پاکستان کو دھشت گردوں کے خلاف کاروائی کے نوٹس دے۔ پاکستان اپنے حصے سے زیادہ کا کام کر چکا ہے مسئلہ افغانستان اور بھارت ہیں۔ اگر امریکہ واقعی اس خطے سے دھشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو بھارت کا کردار افغانستان میں محدود کرے اور افغانستان کو بھارت کی کٹھ پتلی بننے سے روکے۔ پاکستان کے بھارت سے متعلق تحفظات دور نہ کیے گئے تو امریکہ کو اس خطے میں اپنا اتحادی بھی بھارت کو ہی بنانا پڑے گا۔ پاکستان کے پاس روس اور چائنہ کی صورت میں بہترین انتخاب ہر وقت موجود ہے۔
تحریر: سنگین علی زادہ۔

Comments

Popular posts from this blog

بالاخر امریکہ کو جانا ہو گا

گوند کے تالاب میں ڈوبتا امریکہ